پوسٹ باکس اور پرانی یادیں
یادوں کی زنجیر میں جکڑا ایک بوسیدہ ڈاک خانہ
یہ وہی پوسٹ بکس ہے جس نے کتنے ہی خوابوں کی سرگوشیاں سنی تھیں۔
یہاں سے محبت بھرے خطوط روانہ ہوتے تھے، دور بیٹھے اپنوں کو جذبات کے موتیوں میں پرو کر بھیجا جاتا تھا۔
کتنی ہی ماؤں نے اپنے بیٹوں کی خیریت کی چٹھیاں یہاں ڈالی ہوں گی، کتنی بہنوں نے بھائیوں کو عید کارڈ بھیجے ہوں گے،
کتنے عاشقوں نے اپنے دل کی باتیں سرخ لفافوں میں قید کرکے اس صندوق کے سپرد کی ہوں گی۔_____________
لیکن آج یہ در و دیوار خاموش ہیں۔ وقت نے اس پر گرد کی چادر ڈال دی ہے،
اس کی زنگ آلودہ سانسیں چیخ چیخ کر پوچھ رہی ہیں:
"کہاں گئے وہ لوگ جو میرے در پر آ کر امیدیں باندھتے تھے؟
کہاں گئیں وہ چٹھیاں جو دوریوں کو مٹانے کا ذریعہ تھیں؟
کہاں گیا وہ وقت جب ڈاکیہ ہر گلی کی دہلیز پر مسکراہٹیں بکھیرتا تھا؟"
زمانہ بدل گیا، ای میلز اور میسجز کی برق رفتاری نے جذبات کی اس نازک ڈور کو توڑ دیا،
وہ انتظار جو کسی خط کے آنے پر کیا جاتا تھا،
اب مٹ چکا ہے۔
مگر یادیں کبھی نہیں مرتیں، وہ ہر زنگ آلود دروازے، ہر بوسیدہ صندوق اور ہر ویران کونے میں سانس لیتی رہتی ہیں۔
کاش! کوئی پھر سے ان دروازوں پر دستک دے، کوئی پھر سے قلم اٹھائے، کوئی
پھر سے محبتوں کو کاغذ پر اتارے... تاکہ یہ بوسیدہ ڈاک خانہ پھر سے جی اٹھے
یہ بھی پڑھیں۔۔۔۔