رشتے اور ہمارا دماغ
کئی رشتے محض اس لیے ختم ہو جاتے ہیں کہ ہم نے اُن کے بارے میں وہ باتیں بھی سوچ لیتے ہیں، جو کبھی ہوئی ہی نہیں تھیں۔ ہم اپنے ذہن میں سوالات کرتے ہیں اور خود ہی ان کے جواب گھڑتے ہیں۔ پھر انہی جوابات پر یقین کر کے اپنے رویے بدل لیتے ہیں۔
یہ ذہن کا ایک جال ہے، جہاں ہمارا لاشعور حقیقت سے زیادہ قیاس آرائیوں پر فوکس کرنے لگتا ہے۔ یعنی کسی نے میسج کا جواب دیر سے دیا، تو فوراً ذہن میں خیال آیا شاید وہ مجھے نظر انداز کر رہا ہے۔
کسی نے ملنے سے معذرت کر لی، تو سوچ ابھری شاید میں اب اس کی ترجیح نہیں رہا۔ ایسے بےشمار خیالات آہستہ آہستہ حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں، اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک خوبصورت تعلق شک، بدگمانی اور خاموشی کی نذر ہو جاتا ہے۔
ایک دوست کو بڑے چاؤ کے ساتھ ملنے گئے تواس کا رویہ بدلا ہوا لگا۔ اب ہم نے خود ہی فرض کر لیا کہ وہ ہم سے ناراض ہے، ہوسکتا کہ شاید وہ اپنے مسائل میں الجھا ہوا ہو۔
بیوی نے کوئی بات کہی ہم نے اس میں پوشیدہ طنز تلاش کر لیا، حالانکہ ممکن ہے وہ محض گفتگو کر رہی ہو۔
آفس میں باس نے گھور کر دیکھا ہم نے سوچا کہ وہ ہماری کارکردگی سے ناخوش ہے، جبکہ وہ کسی اور معاملے میں پریشان ہو سکتا ہے۔
یہ سب mental projections ہیں، یعنی ہم اپنی سوچ کے مطابق حقیقت کا مفہوم نکالتے ہیں۔ اس کا نتیجہ غیر ضروری تنازعات، بگڑتے رشتے اور بےوجہ ذہنی دباؤ کی صورت میں ملتا ہے
ایسی غلط فہمیوں سے بچنے کے لیے چند گذارشات ہیں کہ سوالوں کے جواب خود نہ گھڑیں۔ اگر کسی کا رویہ بدلا ہوا محسوس ہو، تو براہِ راست بات کریں، قیاس آرائی نہ کریں۔
اپنے خیالات کو چیلنج کریں خود سے پوچھیں کیا میرے پاس واقعی کوئی ثبوت ہے، یا میں صرف اندازے لگا رہا ہوں؟
رابطے بحال رکھیں بول چال کو ترجیح دیں اور خاموشی کو غلط فہمی نہ بننے دیں، دوسروں کے ساتھ کھل کر گفتگو کریں۔
ذہن کا برتن بڑا کریں اور ہر معاملے میں دوسروں کا نقطۂ نظر سمجھنے کی کوشش کریں، نہ کہ صرف اپنی رائے کو ہی حتمی مانیں۔
زندگی کے رشتے نازک ہوتے ہیں، انہیں اپنی ہی سوچ کی غلط گُمان میں مت توڑیں۔ یقین جانیں حقیقی خوشی تب آتی ہے جب ہم خود سے زیادہ دوسروں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔....
یہ بھی پڑھیں۔۔۔۔