مہنگائی ھونے سے کچھ نہیں ھوتا
بس، کچھ باپ اپنے بچوں سے اور زیادہ دور ھو جاتے ھیں اور بچے شفقت پدری سے محروم ھو جاتے ھیں۔
کچھ بیٹیاں مجبوراً پردے سے الگ ھو کر گھر سے باہر روزگار کی تلاش میں نکل پڑتیں ھیں اور وومن empowerment.
اور سیکولرلائزیشن کا ایجنڈا اور زیادہ فطری فطری لگنے لگتا ھے.
کچھ ماؤں کے گھٹیا مگر سستا دودھ اور خوراک خریدنے کی وجہ سے ملاوٹ کرنے والوں کے کاروبار میں اضافہ ھو جاتا ھے اور خالص مگر مہنگی خوراک بیچنے والوں کے حوصلے پست ھو جاتے ھیں۔
کچھ اور رشتہ داروں اور ھمسایوں سے لاتعلقی بڑھ جاتی ھے اور مہمان بوجھ لگنے لگتے ھیں، خوشی غمی کے موقع پر شرکت سے پہلے لوگ سو سو بار سوچنے لگتے ھیں.
کچھ بچے اپنا بچپن انجوائے کرنے سے محروم ھو جاتے ھیں اور وقت سے پہلے سنجیدہ ھو جاتے ھیں،
کچھ اور لوگ نیا کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ موخر کر دیتے ھیں جس سے روپے کی گردش رک جاتی ھے اور روزگار کے مواقع محدود ھو جاتے ھیں۔
کچھ ادویات مثلاً بلڈ پریشر اور سکون آور ادویات کی سیل بڑھ جاتی ھے اور ادویات ساز کمپنیاں اپنی سیل متعین کرنے کے لیے اور زیادہ منضبط اصولوں کے ساتھ ڈاکٹروں کو گھیرنے کی کوشش کرتیں ھیں.
سستے علاج کی تلاش میں دیسی ٹوٹکوں کا کاروبار بھی بڑھ جاتا ھے ،اور کچھ توھم پرستی بھی.
کچھ لوگ مذھب سے دور ہ ھو جاتے ھیں لیکن پیسوں کی ھوس رکھنے والے مجاوروں کے قریب ھو جاتے ھیں.
بس تھوڑی سی چوری چکاری، تھوڑا سا جھوٹ، تھوڑا سا اوور ٹائم اور بہت ساری ناامیدی اور کچھ بھی نہیں،
پس مہنگائی ھونے سے کچھ بھی نہیں ھوتا۔
۔